ضبط کا عالم جب اِس Ø+د تک تہہ Ùˆ بالا نہ تھا
آگ جلتی تھی، مگر اتنا دُھواں اُٹھتا نہ تھا

اب تو تیری یاد بھی آئے، تو گوُنج اُٹھتا ہے دل
زندگی میں اس قیامت کا سکوُں دیکھا نہ تھا

موت آئے گی کہ تو آئے گا، کچھ ہو گا ضرور
ہجر کی شب، چاند کا چہرہ کبھی ایسا نہ تھا

میرے معیاروں کی دُنیا ہی بدل دی عشق نے
اس سے پہلے آدمی اِتنا Ø+سیںِ ہوتا نہ تھا

تیرے مِلنے کی خوشی سے اشک تھمتے ہی نہیں
مَیں کسی پیارے کے مرنے پر بھی یوں رویا نہ تھا

آج تیرا اجنبی لگنا قیامت ہو گیا
مَیں تو خُود اپنے سے بھی بچھڑا تو گھبرایا نہ تھا

توُ نے مُجھ کو پیار سے دیکھا تو گردش تھم گئی
ایک لمØ+ہ، اِتنی صدیوں میں کبھی گزرا نہ تھا

یوں تو جو رنگِ چمن کل تھا، وہی ہے آج بھی
پھول ماضی میں مگر اس کرب سے کھِلتا نہ تھا

اب تو کچھ کہنے سے پہلے خُون ہو جاتا ہے دل
اِتنی شِدّت سے تو مَیں نے آج تک سوچا نہ تھا

دُھن تو مُجھ کو قیس کی سی تھی، مگر اِس دَور میں
پھول اتنے تھے، کہ صØ+را Ú©Ùˆ کوئی رستہ نہ تھا

زندگی میں عُمر بھر یوں تو بھنور پڑتے رہے
ڈوب کر دیکھا تو پانی اِس قدر گہرا نہ تھا

آنکھ سے آنسو بھی گِرتا ہے تو بجتی ہے زمیں
شُکر ہے، دل میں تو اِس شِدّت کا سناّٹا نہ تھا

غم اُدھورا تھا کہ پَیغامِ اَجل آیا ندیم
بوند ابھی بھڑکی نہ تھی، پتھر ابھی بولا نہ تھ